پہلا حصہ
وادیِ کیلاش, ایک ایسی وادی کہ جسے باقی دنیا کے لوگ متجسس نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ایک ایسا خطہ کہ جس نے اپنے دروازے کئی برس تک باہر کی دنیا کیلئے بند رکھے اور پھر جب یہ وا ہوئے تو معلوم ہوا کے کیلاشی تو یونانی النسل ہیں۔ میرا اس وادی میں یہ پہلی بار جانا ہوا تھا اور ہم دن ڈھلے وہاں پہنچے تھے۔ خیرالدین بھائی میرے ساتھ تھے اور مراد صاحب ہمارے ڈرائیور تھے کہ جو بیک وقت چار کام کر رہے تھے، گانے اچانک بند ہوجاتے تو وہ میوزک ڈرائیو کو تھپڑ رسید کرتے، گرد کی صورت میں شیشے چڑھانے اور پھر بعد میں انہیں نیچے کرنے کیونکہ سخت پرائیویسی کے تحت ہمیں یہ سہولت میسر نہیں تھی، سڑک کنارے جانے والوں کو دیکھنا اور کافی غور سے دیکھنا اور ظاہر ہے مردانہ جنس کو دیکھ کر کیا کرنا تھا اُنہوں نے؟ اور آخر میں جو تھوڑا بہت ٹائم بچتا تھا وہ گاڑی چلانے پر توجہ رکھتے۔
چلیں خیر۔ پہنچ گئے اور دن ڈھلے پہنچے۔ کیلاش جانے والی سڑک پر عیون کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سوتیلے ملک کا راستہ ہو اور یہ جان بوجھ کر ایسا بنایا گیا ہے کہ کہیں لوگ آسانی سے پہنچ نہ جائیں۔ بہرحال پھر میں نے یہ سوچا کہ شاید یہ امرربی ہے کہ جنت پہنچنے سے پہلے پُل صراط کا پار کرنا ضروری ہے اور مجھے پھر گلگت سے پہلے چلاس کا خشک گرم پہاڑی بال سا باریک اور تلوار سا تیز رستہ اور چترال سے پہلے لواری ٹاپ کی حکومتی ساختہ پل صراط یاد آئی تو میں واقعی اسے امر ربی سمجھ لیا ہے اور اب اس تناظر میں قناعت کی کسی آگے کی منزل پر فائز ہوں۔ سیدھی بات ہے کیلاش پہنچ کر کچھ اچھا محسوس نہ ہوا، کسی گاؤں کی کچی پکی پگڈنڈی تھی ہر دونوں طرف گھر تھے، گلی نما سڑک کی حالت بہت ہی خراب ہے، وادی کیلاش کے اس حصے کا نام بمبریت ہے اور تمام پنج ستارہ ہوٹل و موٹل اسی مال روڈ پر واقع ہیں۔ ہماری منزل کیلاش کانٹینینٹل تھا جو کہ بھٹو صاحب چلاتے ہیں اور کافی اچھا چلاتے ہیں۔ اس طرح میں نے زندگی میں پہلی بار “زندہ ہے، بھٹو زندہ ہے” کے نعرے کو اپنی “پاکباز” آنکھوں سے دیکھ لیا اور یقین مانئے یہ واقعی پاکباز ہیں۔ ہاں وہ علیحدہ بات ہے کہ میں خود اپنے آپ سے متفق نہیں ہوں۔
دوسرا حصہ
کیلاش پہنچتے ہی اگر میں کہوں کہ جو پہلا خیال ذہن میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ یار میں یہاں کیوں آیا ہوں؟ بس اس لئے کہ میں نے کیلاش کا نام سنا ہوا تھا اور یہ سنا تھا کہ وہاں کوئی ہم سے ہٹ کر قدیم یونانی عقائد کے ماننے والے رہتے ہیں۔ یا میں اس لئے آیا ہوں کہ جب کوئی کہیں کیلاش کا ذکر کرے تو میں فخریہ کہہ سکوں “اچھا، کیلاش، اوہ اچھا، اچھی جگہ ہے، میں نے دیکھ رکھی ہے” یا یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ مجھے اپنی کیلاش میں کھینچی گئی فوٹو چاہئے جو میں پھر سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کو دکھاؤں اور جو لوگ بوجہ مصروفیات و ذائد اخراجات نہ جاسکیں انہیں شدید احساس محرومی کا شکار کروں۔ میں نے سوچا کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں؟ چلیں اس سوال کو یہیں چھوڑتے ہیں کہ شاید یہ لکھتے وقت کہیں جواب خود بخود نکل آئے۔
کیلاش کانٹینٹل پہنچنے پر بھٹو خان صاحب نے واقعی کافی گرم جوشی سے استقبال کیا۔ کمرے دکھائے، سامان رکھا اور چائے بنانے کا کہا۔ میں نے پوچھا کہ سر الائچی ہوتی ہے یہاں؟ بھٹو صاحب نے ہنس کر کہا کہ جی ہاں ہے، تو بس اُسی ہاں میں مزہ آگیا اور کیا گرم الائچی والی چائے ملی کہ جواب نہیں تھا۔ ہمارے پاس وقت کم تھا اور باتیں بہت تھیں کہ جن پر بات ہوسکے تو بس سامان رکھتے ہی، چائے پینے کے دوران گپ شپ شروع ہوگئی۔ باتوں کے دوران مجھے بھٹو صاحب کے اصل جوہر دکھائی دیئے۔ بڑی دلچسپ شخصیت ہے بھٹو خان کی۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ بھٹو خان کے پیدا ہونے سے کچھ دن پہلے یا کچھ مہینے پہلے ذوالفقارعلی بھٹو کیلاش تشریف لائے تھے اور یہ کسی بھی سربراہِ مملکت یا بڑی حکومتی شخصیت کا پہلا دورہِ کیلاش تھا۔ اُس وقت اِس ہوٹل کو بھٹو خان کے والد چلارہے تھے، ذوالفقارعلی بھٹو کا ہیلی کاپٹر اسی کیلاش کانٹینٹل کے ہیلی پیڈ پر اترا تھا اور انہوں نے یہیں قیام کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک عوام میں گھُل مِل جانے والے سیاستدان تھے اور اسی بات سے کیلاشی کافی متاثر ہوئے اور پھر جب بھٹو صاحب آسمانوں سے وادیِ کیلاش میں اترے تو ان کے والد نے اپنے لختِ جگر کا نام بھٹو خان رکھا۔
بھٹو خان کیلاش کا انسائیکلو پیڈیا ہیں۔ دل کے وسیع ہیں، اپنے دروازے سب کیلئے کھلے رکھتے ہیں۔ اس وقت ان کے دو ہوٹل ہیں، ایک یہ کیلاش کانٹینینٹل اور دوسرا کیلاشی گھروں کے بیچوں بیچ گیسٹ ہاؤس ہے جو انہوں نے غیر ملکی مہمانوں کیلئے بنایا ہے۔ سارا گیسٹ ہاؤس لکڑی کا ہے اور اس میں بجلی نہیں ہے، پانی بھی شاید ٹھنڈا ہی ہوتا ہے۔ ویسے گوروں کو ایڈونچر کے نام پر ٹارچر کرنے کا دلچسپ طریقہ ہے یہ بھٹو خان کا۔ اب آگے بات آتی ہے رات کے کھانے کی تو رات میں ہمیں بریانی کھلائی گئی۔ اُف، کیلاش میں، مغربی بارڈر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر آپ کو کھانے میں بریانی مل جائے اور کیا چاہئے زندگی میں، کچھ بھی نہیں، واللہ کچھ بھی نہیں۔ بریانی کے بعد پھر چائے کا دور ہوا الائچی مار کے۔ اگلے دن بھٹو خان نے ہمیں کیلاش میں گھمایا اور کیلاشی روایات کے بارے تفصیل سے آگاہ کیا، کیلاشی گھر دکھائے، اپنا گیسٹ ہاؤس برائے انگریزیان دکھایا۔ کیلاش کی اہم اہم عمارات دکھائیں اور یوں ہمیں لگا کہ کیلاش واقعی ایک طلسمی جگہ ہے کہ جس کے طلسم کا جادو ابھی بھی نہیں ٹوٹا اور قائم و دائم ہے۔
میرے کیلاش آنے کا جواب مجھے واپڈا والوں کی وساطت سے ملا اور پہلی بار میں نے صدقے دل سے واپڈا کو دعا دی۔ رات میں چائے پیتے وقت، بھٹو خان کی باتیں سنتے ہوئے کیلاش کانٹینیٹل کے لان میں کرسی پر بیٹھے ہوئے جب اچانک بتی چلی گئی، ہر سو اندھیرا ہوا تو میں نے ایسے ہی اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے اُوپر بھی دیکھ لیا اور بس، اتنا کافی تھا۔ کیلاش آنے کیلئے بس اتنا کافی تھا۔ آسمان تھا، سیاہ آسمان تھا، نہہں بلکہ سیاہ چادر تھی، کالی سیاہ، کوئلوں سے رنگی ہوئی اور اس پر سفید ستارے ٹانکے گئے تھے اور وہ کئی تھے، بہت سارے تھے، اتنے سارے کہ سیاہ چادر ان میں چھپ گئی تھی۔ نہیں وہ سفید چادر تھی کہ جس پر سیاہی کے چھینٹے پڑ چکے تھے۔ میں دیکھ رہا تھا، بھٹو خان کیلاش کی باتیں بتارہے تھے۔ خیرالدین کی ساری توجہ بھٹو خان پر تھی۔ میں بھٹو خان کی ساری باتیں سن رہا تھا لیکن ایک سوچ میرے تحت الشعور میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئی تھی جو آہستہ آہستہ بھٹو خان کی باتوں کو میرے کانوں کیلئے مدہم کررہی تھی۔ وہ سوچ راسخ ہورہی تھی اور پھر راسخ ہوگئی۔ بھٹو خان اب صرف خیر الدین سے باتیں کررہے تھے۔ میں سفید چادر کو دیکھ رہا تھا کہ اتنی دیر میں انجن کے سٹارٹ کی آواز آئی اور کسی نے سیاہی کی ساری دوات چادر پر انڈیل دی اور سفیدی سیاہی میں دھل گئی۔ میں نے جنریٹر کی طرف غصے سے دیکھا اور پھر سائنس کے منفی پہلو اچانک سے باری باری میرے ذہن میں وارد ہونا شروع ہوئے۔
تیسرا حصہ
کیلاش میں کسی بھی نئے آنے والے کو جو پہلا احساس ہوتا ہے وہ یہ کہ یہاں عشروں سے سیاح آ رہے ہیں اور ملک کی حکومتی و کاروباری شخصیات بھی یہاں آتی جاتی رہتی ہیں مگر یہاں انفراسٹرکچر اتنا خراب کیوں ہے؟ یہاں کی گلیاں، سڑکیں اور دیگر سہولیات جو کسی بھی سیاحتی مقام پر لازم طور پر ہونی چاہئیں ان کا شدید فقدان ہے۔ زیادہ حیرانی بلکہ دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ کیلاش سیاحتی مقام بعد میں ہے، پہلے یہ کیلاش کے لوگوں کا گھر ہے اور یہ ویسا ہی گھر ہے، ویسا ہی علاقہ ہے کہ جیسے لاہوریوں کا لاہور، کراچی والوں کا کراچی اور اسلام آباد والوں کا اسلام آباد ہے، لیکن لوگوں کو یہاں بنیادی انسانی سہولیات بھی بقدر مشکل میسر ہیں۔ اب اس کی وجوہات کئی ہوسکتی ہیں۔ یہ علاقہ دور دراز ہے، راستہ کافی پیچیدہ اور دشوار ہے، موسم کافی سخت اور غیر یقینی سا ہے، یہ سرحدی علاقہ ہے یا یہ کہ کیلاش اس لئے ایسا ہے کیونکہ یہ اسی حالت میں سیاحوں کیلئے پرکشش ہوگا، وگرنہ تمام شہری سہولیات اگر فراہم کردی جائیں تو پھر ملکی و غیر ملکی سیاح اپنے شہر چھوڑ کر یہاں کیوں آئیں۔ اب یہ سب وہ وضاحتیں ہیں کہ جن میں سے کسی کا مجھے حتمی طور پر درست ہونا معلوم نہیں، یہ سب قیاس ہیں میرے، شاید کوئی ٹھیک ہو ان میں سے یا شاید سارے ہیں غلط ہوں۔ مگر ایک بات سیدھی، صاف اور سچی ہے کہ کیلاش کے لوگ ویسے ہی انسان ہیں جیسے ہم اور ویسے ہی پاکستانی ہیں جیسے ہم۔ اس لئے مرکزی، صوبائی و ضلعی حکومتوں کو سوچنا چاہئیے کہ انہوں نے کیا کیا ہے اور وہ کیا کر رہے ہیں؟
کیلاش کے بچوں میں مجھے مختلف روئیے دیکھنے میں ملے، کچھ سیاحوں کو دیکھ بہت خوش ہوتے ہیں اور ہاتھ ہلاتے ہیں۔ کچھ بس دیکھتے ہی رہتے ہیں، کچھ آپ کے قریب آتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ فوٹو کھنچوا کر سیاح انہیں کچھ پیسے دیں گے اور ہاں وہاں مجھے کچھ بچے ایسے بھی ملے کہ جب میں ان سے پوچھا کہ کیا فوٹو کھنچوانا اچھا لگتا ہے تو انہوں نے کہا کہ نہیں اور وہ چھوٹی بچیاں تھیں۔ اب بچوں کے ان روئیوں کا انحصار ہمارے مجموعی روئیوں پر ہے۔ کیلاش میں معاشی سرگرمیاں کافی سرد ہیں، لوگوں کو معاش میں مسئلے ہیں۔ اب ایسا انفراسٹرکچر بھی میسر نہیں ہے کہ سیاحتی مقام پر جیسے معاشی سرگرمیاں ہوتی ہیں ویسی یہاں پر بھی ہوں اور میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ کیلاش کے لوگوں میں باقی پسماندہ علاقوں کی طرح سستی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے، اب یہ سارے عناصر سب یکجا ہوں تو کیا ہوگا؟ وہی ہوگا جو ہورہا ہے۔ سیاح یہاں آتے ہیں، وہ یہاں کا کلچر انجوائے کرتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں، بچوں کے ساتھ تصویریں کھنچواتے ہیں اور ہلا گلا کر کے چلے جاتے ہیں۔ اس سب صورتحال میں سیاحوں کا قصور اتنا ہے کہ جب انہیں کوئی پیارا بچہ نظر آتا ہے اور وہ اس کے پاس جاتے ہیں، فوٹو کھینچتے ہیں تو بچے کو کچھ نقدی دے دیتے ہیں۔ سیاح اپنی طرف سے فراخ دلی کا مظاہرہ کر رہا ہے مگر دوسری طرف گداگرانہ سوچ پروان چڑھتی ہے، جو انسان کو سست بناتی ہے اور اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ کچھ نہ کرے، جو کرنا ہے باہر سے آنے والوں نے کرنا ہے اور میں نے کچھ نہیں کرنا۔
کیلاش میں اسکول ہیں، بچے پڑھتے ہیں، کالجز میں بھی جاتے ہیں اور پھر بڑے شہروں میں آکر اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں اور یہ کافی سالوں سے ہورہا ہے مگر کیلاش کی حالت نہیں بدل رہی بلکہ یہ مزید خراب ہورہی ہے۔ کیلاش کا قدرتی حسن خراب ہورہا ہے، پچھلے سال کے سیلاب نے کیلاش کی خوبصورتی کو کسی حد تن متاثر کیا ہے، اُس میں پہلی سی بات نہیں رہی اوپر سے انفراسٹرکچر نہیں ہے۔ باقی رہ گئے کیلاش کے میلے کہ جو اس وقت کیلاش سے باہر کی دنیا کیلئے ایک مقناطیسی شے ہیں تو اس ضمن میں مرا خیال یہ ہے کہ آئندہ عشرے میں وہ اب جیسے نہیں رہیں گے کیونکہ زمینی حقائق تبدیل ہوچکے ہوں گے تو پھر کیلاش کون جائے گا؟ جب کیلاش جانے کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہوں گی، کیلاش کے اندر کوئی انفراسٹرکچر نہیں ہوگا، کیلاش کے میلے اب جیسے نہیں ہوں گے تو کیلاشی بچے کس سیاح کا انتظار کریں گے؟ برائے مہربانی ان بچوں کو انتظار کے ۔عذاب سے نکالیں اور خوشحالی کے راستے پر لگائیں، یہی اصل حل ہے
(یہ تحریر اکتوبر 2016 میں لکھی گئی)